Akhri Pesi Urdu Story Best Kahani | آخری پیشی

Akhri Pesi Urdu Story is one of the best novels in Urdu that captivates readers with its engaging storyline and moral lessons. This Urdu story book is a treasure trove of moral stories in Urdu, transporting readers to a world where imagination knows no bounds. From its vibrant characters to its richly detailed settings, every aspect of this novel comes alive, leaving a lasting impression on the reader’s mind.

The pages of Akhri Pesi are filled with gripping tales that teach valuable life lessons in a subtle yet impactful way. This collection of moral stories in Urdu is not just an entertaining read, but also a guide to navigate the complexities of life. It instills important values such as honesty, kindness, and perseverance, making it a must-read for readers of all ages.

Urdu stories are like magical adventures in a special language called Urdu. You can find these stories in a computer place as special files called PDFs. Imagine having a treasure chest of fun and exciting tales right on your screen!

Some stories are about amazing adventures, while others teach us about our faith in a language called Islamic. The best part is, you can easily open these stories and read them whenever you want. So, if you ever want to go on a journey of words, just click and enjoy the wonderful world of Urdu novels!

Akhri Pesi Urdu Story | آخری پیشی

Akhri Pesi Urdu Story

امی ! مجھے معاف کردیں پلیز دروازہ کھولیں ۔ دہ رونے لگی، اس کی التجائیں، یہ آواز میں ۔ میں سن رہی ہوں۔ کانوں پر ہاتھ رکھنے کے باوجود مجھے اس کی آواز سنائی دے رہی ہے کہ ابھی وہ دروازے کے اس پارہی بیٹھی ہے۔ میں تو اس کی آواز جب بھی سن لیتی تھی جب وہ امریکہ میں تھی ، اپنے شوہر کے ساتھ۔ اپنی اکلوتی بیتی کے لیے میرے دل کے دروازے ہمیشہ کھلے تھے مگر آج گھر کا درواز بلکل بند ہے۔ اور یہ بند ہی رہے گا۔ رابیعہ دروازہ کھول کر اندر آ گئی، میں نے اسے ایک فاضل چابی دے رکھی ہے۔

اس لیے وہ جب چاہے میرے گھر میں داخل ہو سکتی ہے۔ میرے لیے چائے کا تھرماس لا کر اس نے میز پر رکھ دیا۔ میری خاموشی کو بغور میرے چہرے کی طرف دیکھ کرسمجھنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے وہ میرے مقابل کرسی پر خاموشی سے بیٹھ گئی۔ آج میں نے اسے مسکرا کر سلام نہیں کیا تھا۔ شاید اس نے سلام کیا ہو اور میں نے جواب نہیں دیا تھا۔ پتا ہی نہیں چلا تھا، مجھے اس کی آواز نہیں سنائی دی تھی۔

میں تو نغمانہ کی کھلکھلا سن رہی تھی، اپنے چگھوڑے میں لیتی مسکراتے ہوئے وہ مجھے اور سکندر کو دیکھتے ہوئے خوب ہنس رہی ہے۔ صرف چوبیس سال پہلے کا منظر تھا۔ آنکھوں میں روز حاضر کی طرح روشن اورعیاں ۔ اس کی پیدائش پر ہم نے کئی دن تک جشن منایا، پورے خاندان کے ہر فرد کے گھر پر مٹھائی کے ٹوکروں کے ساتھ قیمتی جوڑے بھجوائے گئے ۔ فیکٹری کے ملازمین کی تنخوا دگنی کر دی گئیں اور کئی جائدادیں لغمانہ کے نام منتقل ہو گئیں۔ یہ خوشی تو دنیاوی دولت لٹا کر ظاہر کی گئی مگر اپنے گھر پر اس کی موجودگی کا ایک ایک لمحہ ہمیں نئی مسرتوں سے آشنا کرتا رہا۔

جس دن وہ پہلی بار ٹیک لگا کر بیٹھنے کے قابل ہوئی، جب اس کا پہلا دانت نمایاں ہوا اور اس نے پہلا قدم اٹھایا۔ یہ تمام دن ہمارے نوکر ہم سے جھولیاں بھر بھر کے صدقات و خیرات سمیٹتے رہے۔ سکندر کا اور میرا تو دل ہی نہیں بھر رہا تھا، کی چاہتا تھا اپنا سب کچھ اس کی مسکراہٹ پر قربان کر دیں۔۔ اس کی زندگی کے کسی لمحے ہم نے کسی بھی قسم کی کوئی کمی یا پریشانی اس کے نزدیک نہیں آنے دی۔ شادی بھی بہت دھوم دھام سے کی-

Akhri Pesi Urdu Story | آخری پیشی

سوئی سے لے کر صندوق تک سب کچھ دیا، پورا بگلہ قیمتی فرنیچر سے آراستہ کر کے دولہا دلہن کو تحفتاً دیا جبکہ ان دونوں نے امریکہ میں جا کر رہنا تھا۔ ساحر، ہمارے داماد کی سکونت نیو یارک میں تھی اور نوکری بھی۔ یہ محبت کی شادی، ساحر کے مالی اعتبار سے کم تر ہونے کے باوجود ہم نے صرف فلمانہ کی محبت میں کروائی تھی۔ اپنے کالج فیلوز کے ساتھ چھٹیوں میں امریکہ ٹرپ کے دوران نعمانہ کی ساحر سے ملاقات ہوئی جو بعد ازاں محبت میں بدل گئی۔

سکندر اور میں. تھوڑی پس و پیش کے بعد نعمانہ کے اس فیصلے پر راضی ہو گئے اور پھر ہم نے وہی کیا جو ہمیشہ سے کرتے آئے تھے، کوئی کمی نہیں چھوڑی۔ پر شاید نہیں کچھ کی رہ گئی تھی۔ تب ہی سکندر کی وفات کے ایک ہفتے بعد نعمانہ مجھ سے تیاری کی ملکیت حاصل کرنے کے لیے کاغذات پر دستخط کروانے آگئی۔ شادی کے بعد چھ سال تک اس کا جب بھی پاکستان آنا ہوا وہ ایک ایک کر کے اپنے نام کی گئی ساری پراپرٹی کو بیچ کر رقم ساتھ لے جاتی رہی۔ عیش و عشرت میں رہنے کی عادت شادی کے بعد چھوٹ نہیں رہی تھی اور ساحر کی تنخواہ میں وہ ساری خواہشات پوری کرنا ممکن نہیں تھا۔

اسی لیے ہمارے لاکھ کہنے کے باوجود وہ روپیہ دونوں ہاتھوں سے لتاتی رہتی رہی تھی ۔ اپنے آخری دنوں میں سکندر بہت بیمار رہنے لگے، پھر انہیں کینسر تشخیص ہوا اور علاج چلنے لگا جو کہ ظاہر ہے بہت مہن تھا۔ بلڈ کینسر سے متاثرہ جسم اور چہرے پر توانائی لوٹ آئی تھی جب وہ نغمانہ سے فون پر بات  کرتے۔

مجھے آج سوچنے پر یاد آ رہا ہے کہ نغمانہ نے ہمیشہ رقم کے مطالبے کے لیے فون کیا۔ کبھی صرف باپ کی طبیعت کے لیے یا میری خبر گیری کے لیے نہیں۔ پتا نہیں اولاد کی محبت آنکھوں کو اندھا اور کانوں کو بہرا کیوں کر دیتی ہے کہ ان کی حرص وہوس دیکھ نہیں پاتے ، ان کی آواز میں خود غرضی سنائی نہیں دیتی۔ مجھے تو اس وقت بھی یقین نہیں آیا تھا جب وہ میرے سامنے کھڑے ہو کر اپنا مطالبہ دہرا رہی تھی۔ سائن کریں جلدی امی کیا گھور رہی ہیں؟

اس کا اصرار مجھے پہلی بار بد نیزی محسوس ہوا لیکن میں نے ضبط کرتے ہوئے نہایت نرمی سے جواب دیا۔ تم یہاں پاکستان واپس آرہی ہو ؟ ہم ہاں شاید وہاں ساحر کی جاب کا کچھ پتا نہیں کب نکال دیں وہ لوگ۔ اس لیے واپس آنا پڑے گا ہمیں ” تو آجاؤ، گھر بھی موجود ہے اور ساحر فیکٹری سنبھال سکتا ہے مجھے کوئی اعتراض نہیں۔” اس نے اپنی عجیب نظروں سے مجھے گھورا، جیسے کر رہی ہو آپ کے اعتراض کی پروا کے ہے ؟ مگر یہ نہیں کیا اس نے جو کہا ، وہ جیکی باتوں سے زیادہ تکلیف دہ تھا۔ آپ بھول رہی

ہیں، چاچا اپنے دونوں بیتوں کے ساتھ فیکٹری پر نظر لگائے بیٹھے ہیں۔

کل کو آپ ڈ ید کی طرح اچانک مرئیں تو میں تو خالی ہاتھ رہ جاؤں گئی میں کئی سیکنڈ زتک کچھ بول نہیں پائی۔ کیا کہتی ؟ جو کچھ نغمانہ کہ رہی تھی ، اس کا جواب میرے پاس تھا ہی نہیں ۔ ہاں سوال بہت سے تھے جن میں سرفہرست سوال پوچھنے کی ہمت نہیں ” کیا اسے مجھ سے زیادہ دولت سے پیار ہے؟” ہے نا گھسا پٹنا، جذباتی اور بے وقوفانہ سوال، بھلا اس قدر صاف مطالبوں کے جواب میں ایسی بائیں کی جاتی ہیں؟ ثابت کر دیا نا میں نے کہ میں ایک سمجھ دار بیٹی کی کم عقل ماں ہوں ۔

میں خاموش ہوگئی پر میں نے دستخط بھی نہیں کیے تھی -نہ فیکٹری اور نہ ہی اس گھر کے کاغذات نغمانہ کے حوالے کیے۔ میری خاموشی دن بدن اس کی بد تمیزی میں اضافہ کرنے لگی۔ پھر اس نے میرے خلاف کورٹ میں کیس دائر کر دیا۔ ہونہ اپ حیران نہ ہوں، یا تھوڑا سا ہو جائیں ، پر میرے دکھ کا اندازہ آپ کو پھر بھی نہیں ہوسکتا۔ میرے مقابل میری اپنی بہنیں آکھڑی ہوئی تھی جسے مجھ سے جیتنا تھا مقدمہ بھی اور دولت بھی۔

میں خاموشی میں ہی سب کچھ ہار جاتی اگر نغمانہ کی دوست رابعہ میرے حق میں کھڑی نہ ہوتی۔ اس نے وکالت پاس کی تھی، اسی نے میری طرف سے وہ تمام دستاویزات عدالت میں جمع کر دئیں جن سے ثابت ہو رہا تھا کہ نغمانہ کو اس کا جائز حق بھی دیا جاچکا ہے اور اس سے کہیں زیادہ مالی تحائف بھی مل چکے ہیں۔ رابعہ کے دل میں اللہ نے ہی احساس ڈالا کہ وہ اپنی دوست کے بجائے میرا ساتھ دینے لگی۔

اس نے پہلے دن سے ہی نعمانہ کو سمجھانے اور روکنے کی پوری کوشش کی اور پھر اس کی طرف سے کیس لڑنے سے انکار کر دیا۔ مگر نغمانہ اپنی ضد کی تھی اس نے دوسرے وکیل سے رابطہ کر لیا تھا اور اب میری پیشی تھی۔ میں عدالت جا نا نہیں چاہتی تھی ۔ لوگوں کی عجیب نظروں کا سامنا کرنے کی ہمت بھی نہیں تھی مجھ میں اور نہ ہی اتنا حوصلہ کہ نعمانہ کے چہرے پر اپنے لیے نفرت کے جذبات دیکھ سکوں ہو میں نے انکار کر دیا۔

Akhri Pesi Urdu Story | آخری پیشی

رابعہ نے کہا اس طرح کیسی طوالت اختیار کر جائے گا۔” میں الجھ پڑی کہ ” جب ہر بات صاف ظاہر ہو چکی ہے کہ ہم نے اس کا حق دے دیا ہے تو اب کسی بات کی پیچی ہے؟

وہ ہچکچائی پھر گویا ہوئی ۔ نغمانہ نے وہ پھر رکی تو میں نے بات مکمل کرنی چاہی۔ اس نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ؟”۔ نفی میں سر ہلاتے ہوئے رابعہ اپنے لب کچلنے لگی – میں مزید الجھی – “تو پھر ؟ ایک گہری سانس لے کر رابعہ نے جیسے اپنے اندر ہمت جمع کی۔ وہ اس نے ایک اور دعوا کیا ہے۔” وہ کیا ؟ مجھے حیرت ہوئی۔ اس کا کہنا ہے کہ سکندر انکل آپ کو طلاق دے چکے تھے اس لیے جاندار پر آپ کا کوئی حق نہیں بنا۔”

میں لڑکھڑائی اور کری کا سہارا لے لیا۔ رابعہ آگے بڑھ کر مجھے سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگئی۔ میں آپ کو بتانا نہیں چاہتی تھی، سوچا تھا کورٹ میں پیشی کے وقت سے ذرا پہلے جا کر ہم نغمانہ سے مل کر اس کو سمجھانے کی کوشش کریں ۔ میں تو سن ہی اس کی طرف دیکھے جارہی تھی۔ آپ پریشان نہ ہوں میں اسے سمجھاؤں گی آپ کو دیکھ کر وہ ہو سکتا ہے اپنے ارادے سے باز آ جائے۔ میں نے اسے بے چارگی سے دیکھا۔

یہ سچ نہیں ہے تم جانتی ہوں ناں۔” میں نے اس سے یقین دہانی چائی۔ ہاں، میں جانتی ہوں ایسا ہونا ناممکن ہے – آنتی سکندر انکل تو بہت محبت کرتے تھے آپ سے – بس یہ نغمانہ ضد پر آگئی ہے تو صیح غلط کی پیچان بھول گئی ہے۔” ا سے اپنی ماں سے کوئی غرض نہیں صرف باپ کی دولت سے مطلب ہے۔” رابعہ نے افسوس سے سر ہلایا جایا۔ آپ اس کے حوالے کردیں گی جائداد اور یہ گھر ؟ اگر وہ اس حد تک نہ جاتی تو کچھ دن ٹہرجاتی میں نے بھی تو مر جانا ہے اور کتنے دن جیوں گی ؟

رابعہ نے میرا ہا تھ تھام لیا اور سہلانے لگی۔ ایسی باتیں مت کریں ۔ وہ ناحق مطالبہ کر رہی ہے۔ ہم اپنے حق کے لیے ضرور لڑیں گے ۔ پھر رابعہ نمجھے عدالت لے آئی۔ اس کی طرح مجھے بھی امید ہونے کی کہ نگمانہ مجھے دیکھ کر اپنے دھوکے سے دست پر دار ہو جائے گی۔ میں نے رابعہ سے کہ دیا تھا نعمانہ سے کہ دے میں فیکٹری اسے دینے کے لیے تیار ہوں۔ لیکن اس طرح وہ میرا تماشا نہ بنائے۔ جھوٹی طلاق کی باتیں کر کے مجھے بدنام تو نہ کرے۔

رابعہ مجھے باہر بٹھا کر دور کھڑی نعمانہ کے پاس بیٹھی ، کچھ دیر اسے قائل کرنے کی کوشش کرتی رہی اور پھر میں بے چینی سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس ہے پہلے کہ میں کچھ جواب دیتی ہمارے کیس کی پکار پڑگئی۔ میں ذاتی طور پر ابھی ابھی، رابعہ کا ہاتھ پکڑ کر میں اس کے چہرے پر جیت کا یقین دیکھ کر تھوڑا سا ڈگمگائی۔ دل کیا، رابعہ کا ہاتھ چھڑا کر بھاگ جاؤں۔ میرے مقابل میری اولادتھی، مجھے ہار جانا چاہیے تھا۔ شاید رابعہ میرے ارادے کو بھانپ گئی ہوگی جو اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ کر مجھے آگے کر لیا۔

کٹہرے میں کھڑی ہم دونوں آمنے سامنے آچکی تھیں۔ میرا ذہن تو ماؤف ہو رہا تھا ۔ اسے اب صرف فیکٹری نہیں چاہیے۔ سب کچھ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ رابعہ نے جھجک کر پوچھا۔ ” کیا آپ کو منظور ہے؟” گھڑی ہوئی اور کمرہ عدالت کی طرف جانے لگی۔ نعمانہ بھی دروازے کے قریب آچکی تھی، اس نے میرے قریب آکر سر گوشی کی آپ کیس ہار جائیں گی بہتر ہے مان جائیں۔ ٹکر ٹکر میں نغمانہ کی جانب دیکھ رہی تھی جب ہی طلاق کا لفظ میری سماعت سے ٹکرایا اور جیسے مجھے ہوش آ گیا ۔

Akhri Pesi Urdu Story Best Kahani | آخری پیشی

وہ جھوٹ ہے۔ ” میں پوری قوت سے چلائی۔ سکندر نے مجھے طلاق نہیں دی تھی۔” رابعہ نے عدالت سے درخواست کی کہ نغمانہ کو اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے لیے ثبوت دینا چاہیے یا کوئی گواہ نغمانہ پہلے سے تیار تھی۔ گواہ کے طور پر اس نے ہمارے گھر کی پرانی ملازمہ کو پیش کر دیا جسے یقینا پیسے کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملایا تھا۔ ملازمین کا بیان پیش کردیا گیا، ساری کارروائی کے دوران نغمانہ کے چہرے پر مسکینی طاری رہی جیسے وہ طلاق دینے کی وجہ جان کر مسلمین ہے، جب رابعہ نے پوچھا۔ طلاق دینے کی وجہ کیا تھی ؟”

بد کردار میں میرے والد سکندر یہ برداشت نہ کر سکے کہ ان کے ہوتے ہوئے وہ دوسرے مردوں کے ساتھ میری برداشت جواب دے گئی تھی پھر میں نہیں جانتی میں نے کیا کیا ؟ کیسے کہا ؟ اور کیوں؟ لیکن فیصلہ پھر میرے حق میں ہو گیا تھا۔ میں مقدمہ جیت گئی تھی۔ رابعہ کو مجھ سے یہ توقع نہیں تھی ، وہ مجھے اس لیے تو لے کر نہیں گئی تھی۔ نہایت شرمندہ اور عجیب کی ہو کر اس نے مجھے گھر تک پہنچانے کا فریضہ ادا کیا۔

وہ مجھے اندر تک چھوڑنے نہیں آئی تھی، شاید اسے یقین آگیا تھا کہ میں اپنا خیال خود ر کھ سکتی ہوں اور ٹھیک بھی ہے۔ مجھے اب کسی سہارے کی ضرورت نہیں رہی۔ میری توقع کے بر خلاف اس نے مجھ سے کوئی سوال نہیں کیا تھا کہ میں نے ایسا کیوں کیا لیکن میں آپ کو ضرور بتاؤں گی۔ بد کرداری کے اعزام نے مجھے ماں سے عورت بنا دیا۔ جس کے مقابل دوسری عورت تھی اور آپ تو جانتے ہیں، دنیا میں صرف عورت ہی عورت کو شکست دے سکتی ہے، کسی مرد میں یہ حوصلہ نہیں۔

اس لیے جب نغمانہ کے منہ سے یہ فقرہ ادا ہوا کہ اس کی ماں بد کردار ہے تو میں پھر گئی، اب میرا مخاطب بیج تھا۔ ٹھیک ہے۔ میں تسلیم کرتی ہوں کہ سکندر نے مجھے طلاق دے دی تھی۔ نغمانہ ہی بول رہی ہے ” عدالت میں چہ مگوئیاں شروع ہوئیں۔ بیج پوری طرح میری طرف متوجہ تھا۔ نعمانہ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ نظر آئی اور رابعہ کے چہرے پر افسوس۔ لیکن ” میں پھر گویا ہوئی اور سب میری طرف دیکھنے لگے۔

دنیا جانتی ہے کہ میں ان کی بیوی تھی تھی تا؟” میں نے تصدیق طلب نظروں سے حج کی دیکھا، اس کی تائید پر میں نے اپنا ہاتھ بلند کر کے لغمانہ کی طرف اشارہ کیا۔ ” لیکن میں کہتی ہوں کہ یہ سکندر کی بیٹی نہیں ہے۔ حج اپنی کرسی سے کھڑا ہو گیا۔ نعمانہ کی آئے دہشت سے پھیل گئیں۔ رابعہ حیران پریشان کیا فیصلہ میرے حق میں ہوتا دیکھتی رہی۔ اب میں گھر آچکی ہوں۔ نعمانہ نے کیس ہارا یا واپس لیا، مجھے اس سے غرض نہیں ۔

وہ میرے دروازے سے ٹکراتے معافیاں مانگ رہی ہے مگر مجھے پروا نہیں۔ اب میں ماں نہیں رہی بقول اس کے جب ہوئی نہیں رہی تھی تو ماں بن کر میں نے کیا پا لیتا تھا۔ وہ پہلی پیشی، جس میں فیصلہ میرے حق میں ہوا۔ میرے لیے کوئی معانی نہیں رکھتی، مجھے تو آخر پیشی کی فکر کھائے جارہی ہے۔ روز قیامت میں اس بہتان کو گھڑنے کی کیا تو جیبہ پیش کروں گی ؟ اس لیے اپنی ساری دولت فرست کے نام کر کے میں دارالامان جارہی ہوں۔

میں حصہ میں تھی یا جنونی ہوگئی تھی ، پر بہر حال میں نے بھی وہی گناہ کیا جو نغمانہ نے کیا تھا۔ میں نے اسے معاف کر دیا، آپ سب بھی میرے لیے دعا کریں کہ اللہ مجھے بھی معاف فرمادے۔